مالی کے دسویں شہنشاہ کے حج کو امیر ترین فرد کا حج کہا جاتا ہے جنہوں نے سال ۱۳۱۲ سے ۱۳۳۷ کے دوران حج بجا لایا تھا جب مالی مستحکم ترین پوزیشن میں تھا۔ ٹائمز میگزین کے مطابق مانسا موسی کا اس وقت سرمایہ ۴۰۰ ارب ڈالر سے زائد تھا جو سونے کا کانوں کی وجہ سے انہیں حاصل تھا۔
موسی کا خیال تھا کہ اسلام «مشرقی میڈی ٹرانا» میں داخلے کا زریعہ ہے لہذا انہوں نے اسلام کی ترویج پر خاصا کام کیا. موسی سال ۱۳۲۴ میں حج کا فیصلہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس کے کاروان میں ۶۰ هزار مرد شامل تھے اور سب نے قیمتی ابریشم کے کپڑے زیب تن کیے تھے۔ بارہ ہزار غلام قافلے کے ہمراہ تھے اور ہر ایک کے پاس ۱,۸ کیلو گرام سونے کے سامان تھے۔
اس لاو لشکر میں ۸۰ اونٹ قافلے کے ساتھ تھے اور ہر اونٹ پر ۲۳ سے ۱۳۶ کیلو گرام سونا لدا ہوا تھا اور موسی راستے میں آنے والے ہر فقیر کو سونا خیرات میں دیتا۔ وہ نہ صرف فقیروں بلکہ تاجر حضرات کو بھی سونا تحفے میں دیتا اور ہرجمعہ کو ایک مسجد تعمیر کرتا. اس سفر کے احوال کو کئی ایک لوگوں نے تحریر کیا ہے۔ جولائی سال ۱۳۲۴ کو موسی نے مصر کے بادشاہ ناصر محمد سے ملاقات کی ۔
بہت سے مورخین کا خیال ہے کہ یہ حج بین الاقوام سطح پر لوگوں کو مالی کی ترقی کی جانب سے لوگوں کو متوجہ کرانا تھا. اس زمانے میں قاہرہ سونے کی خرید و فروخت کا مرکز تھا مگر موسی نے اس کو شدید متاثر کیا۔
موسی نے خود اس اقدام کو دنیا کو مالی کی عوام کی خوشحالی کی جانب متوجہ کرانا بتایا تھا اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہا اور انکو کے شہنشاہ کے طور پر اطلس کاتالان (اس دور کی اہم ترین گینز بک) کے طور پر لکھا گیا۔/